اٹک خورد ۔ مسجد شیر شاہ سوری آواز سینٹر میں شہید قران اور سپارے بہت زیادہ جمع ہو چکے تھے. روزہ بھی بہت سخت تھا,ایک دوست کو ساتھ لیا,گاڑی بھ...
اٹک خورد ۔ مسجد شیر شاہ سوری
آواز سینٹر میں شہید قران اور سپارے بہت زیادہ جمع ہو چکے تھے. روزہ بھی بہت سخت تھا,ایک دوست کو ساتھ لیا,گاڑی بھری اور نظام پور چلے گئے. قران فیکٹری میں تمام شہید اوراق اتارے اور واپسی پر اٹک خورد کی پرسکون فضاء نے قدم روک لئے. مجھے اس جگہ سے عشق سا ہو گیا ہے, عجیب روحانی سکون ہے,بزرگوں کی اس دھرتی پر, زندگی میں ٹھہراؤ سا آجاتا ہے.ہم نے اس چھوٹی سی آبادی میں عصر پڑھنے کے لئے کوئی پرانی,قدیم مسجد ڈھونڈنی شروع کردی. اٹک چیک پوسٹ کے قریب, پولیس سٹیشن کے سامنے, مشہور بارہ دری اور پوسٹ آفس سے ملحق? مسجد کی نشان دھی ہونے پر,وہاں چلے گئے.شیر شاہ سوری کے دور کا داخلی دروازہ, پرانی قبریں,کالے پتھر کی دیواریں, پرانے لوٹے چرخی والے کنویں کے ساتھ ساتھ,کچھ جدید تعمیر سے,اس چھوٹی سی مسجد کو زیادہ آرام دہ اور سہولیات سے مکمل کیا جا چکا ہے.مسجد کے صحن میں بچے اسلامی تعلیم حاصل کر رہے تھے.ہم وضو کرنے لگے تو بچوں اور لوکل نے بھاگ کر لوٹے بھرنے شروع کر دئے لوکل بزرگ بھی مہمان سمجھ کر آؤ بھگت کرنے لگے. نماز عصر سے فارغ ہوئے تو مقامی لوگوں سے گپ شپ کا نہ صرف مزہ آیا بلکہ انکی اپنائیت اور محنت سے انجانی سی خوشی ہوئی. ہم نے انکی افطاری میں اپنا حصہ ڈالنے اور انکے ساتھ ہی افطاری کی خوائش کا اظہار کیا اور خیر آباد جا کر کچھ چیزیں لے آئے.مسجد میں موجود بچے ہمارے اسطرح اچانک آنے,افطاری میں شامل ہونے اور انکے لئے افطاری کے بندوبست پر بہت خوش تھے,جو شاید ہماری وہاں افطاری کا اصل مزہ,سکون اور راحت تھی.لوکل لوگوں,خاص طور پر وہاں کی مسجد انتظامیہ کے شاہ صاحب نے مسجد کی جو تاریخ بتائی اس پر بہت زیادہ خوشی,پنجاب پولیس کے ایک افسر چوہدری افتخار احمد سابقہ ایس ایچ او اٹک خورد کی کارکردگی پر ہوئی, ہمارا پولیس کے بارے عمومی رویہ کچھ اتنا اچھا نہیں ہوتا لیکن کچھ پولیس ملازمین کہیں نہ کہیں بہت کمال کر رہے ہوتے ہیں, جسکا ہمیں علم نہیں ہوتا,یا ہم انکی برملا تعریف نہیں کرتے. میرے دل میں چوہدری افتخار احمد کی عزت,قدر و منزلت میں بے پناہ اضافہ ہوا,حالانکہ میں انکو جانتا ہوں نہ موجودہ تعیناتی کا کوئی اندازہ ہے.اس پولیس افسر نے لوکل آبادی کی خوائش پر, محکمہ آثار قدیمہ سے انتہائی محنت,بھاگ دوڑ کے بھد, اس مسجد کو عام لوگوں کے لئے واگزار کروایا, آباد کروایا, ہر قسم کی فی سبیل اللّہ مدد فراہم کی, میں تلاوت کی آوازوں میں سوچ رہا تھا,کہ یہ آوازیں, پانچ وقت کی آذان, نمازیں, رمضان کی تراویخ, بچوں کی اسلامی تعلیم,ہر ہر نیکی میں یقیناً چوہدری افتخار کو بھی اللّہ ضرور آجر سے نواز رہا ہوگا. شیر شاہ سوری کے دور کی بنی یہ مسجد سالوں سے ویران تھی, جب 1992 ۔ 93 میں دریا سندھ پر نیا پل بنا, تو یہ نئی سڑک کے کنارے ہونے کی وجہ سے توجہ کا مرکز بنی, اسکی تزین و آرائش کی گئی, ہر قسم کی سہولیات مہیا کی گئیں, اب یہ اٹک خورد کی لوکل آبادی, چک پوسٹ, تھانہ,اور آرمی چیک پوسٹ کے لوگوں کی نماز کی ادائیگی کی قریب ترین مسجد ہے.مسجد کے صحن میں لگے کنویں کا پانی حیران کن حد تک میٹھا اور ٹھنڈا ہے. مسجد کے قاری صاحب نے افطاری سے چند منٹ پہلے ہمیں نہانے کی ہدایت کی تاکہ گرمی کی شدت کم محسوس ہو,تو جسم پر روایتی لوٹے ڈالنے سے شدید سردی لگنے لگی.مسجد کی ایک طرف جی ٹی روڈ اور دوسری طرف خوبصورت پہاڑی سلسلہ ہے.مسجد میں موجود بچوں سے اسلامی تعلیم کے علاوہ,اسکول کا پوچھنے پر,بہت خوشی ہوئی کہ تمام بچے,باقائدہ اسکول جانے والے تھے, مڈل تک لوکل لیکن ہائی کے لئے انہیں خیر آباد,کے پی کے جانا پڑتا ہے.ایک طرف جی ٹی روڈ,دوسری طرف خوبصورت پہاڑی سلسلہ, مغرب کی نماز کے بھد ہم, اونچے نیچے گھروں کی خوبصورت لائٹیں دیکھتے,اس پرسکون وادی سے واپس روانہ ہوئے.دل میں چھپی ایک پرانی خوائش بہت بے چین کرتی رہی کہ اس زمین پر '' اپنا گھر '' طرز کا ایک ادارہ, خدا زندگی میں ہمت,توفیق دے دے.امجد اقبال ملک
No comments