Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

Hover Effects

TRUE

Pages

{fbt_classic_header}

Header Ad

LATEST:

latest

Ads Place

Attock Fort History In Urdu

 اگست 1581ء میں ایک روز دوپہر کے وقت مغل شہنشاہ اکبر نے ایک تقریب میں اٹک کے قلعہ کی بنیاد رکھی جب اس نے کابل کے گورنر محمد حکیم مرزا پر فتح...



 اگست 1581ء میں ایک روز دوپہر کے وقت مغل شہنشاہ اکبر نے ایک تقریب میں اٹک کے قلعہ کی بنیاد رکھی جب اس نے کابل کے گورنر محمد حکیم مرزا پر فتح پائی۔ اس واقعہ کی یادگار کے طورپر سنگ مرمر کی تختی پر فارسی شعر کندہ کیا گیا ۔ جب سورج کی پہلی شعاع گیٹ پر پڑتی ہے تو یہ عبارت صاف پڑھی جاتی ہے۔ سپرشاہان عالم شاہ اکبر تعالیٰ شانہ ! اللہ اکبر یہ قلعہ 99ہجری 1581ء میں قائم ہوا ۔ اس عمارت کی تعمیر کے متعدد مقاصد تھے جن میں سے سب سے اہم بیرونی حملہ آوروں سے ملک کا دفاع تھا۔شہنشاہ اکبر نے قلعہ اٹک کی تعمیر کا کام خواجہ شمس الدین خان کے سپرد کیا جو بعد میں پنجاب کا دیوان مقرر ہوا۔اس نے اکبر کی ہدایات کی پیروی میں دوسال اور دوماہ کی مدت میں قلعہ مکمل کرلیا۔ اس کی تاریخ کے بارے میں ملا عبدالقادر بدایوانی لکھتے ہیں:ربیع الثانی 99ھ میں بادشاہ نے سندھ کے کنارے قلعہ کی تعمیر کا حکم دیا ۔ ایک اور کہانی جو اس قلعہ کی تعمیر کی بابت ملتی ہے، وہ کچھ یوں ہے کہ اکبر نے جب دیکھا کہ دریائے سندھ پار نہیں ہوتا تو اس نے اس جگہ کو ایک کا نام دیا۔ اٹک یعنی روک، جب وہ دریائے سندھ پار کر گیا تو اس نے خیرآباد کا نام دیا۔ اس موقع پر اکبر نے یہاں ایک بڑا بیڑہ تیار کرایا اور جمنا سے بہت سے ملاح یہاں تعینات کیے اور ان کے لیے قریبی دیہات کی جاگیر وقف کی۔ اس آبادی کا نام ملاحی ٹولہ ہے۔ قلعہ کی تعمیر کے بعد 1585ء میں اکبر نے پہلی بار قلعہ کو دیکھا اور کچھ وقت یہاں پر گزارا۔ قلعہ اٹک دریائے سندھ کے کنارے راولپنڈی سے 58میل اور پشاور سے 47میل کے فاصلے پر واقع ہے جہاں ریل کے ذریعے بھی پہنچا جاسکتا ہے۔ قلعہ سطح سمندر سے بلندہے اور دو چٹانوں کملیہ اور جلیلہ کے درمیان واقع ہے۔ فن تعمیر کے لحاظ سے اٹک قلعہ واضح کرتا ہے کہ یہ قلعہ فتح پور سیکری دہلی اور قلعہ لاہور کی طرز پرخالصتاً فوجی مقاصد کے لیے تعمیر کیا گیا۔ چاروں طرف سے اس کی چار دیواری ایک میل پر محیط ہے جو اٹھارہ برجوں کے ساتھ ملتی ہے۔ قلعہ کے برج مقامی چٹانی پتھر سے بنائے گئے ہیںجن پر چونے کی دبیز تہہ چڑھائی گئی ہے۔ داخلی دروازوں پر سرخ پتھر استعمال ہوا ہے جب کہ قلعہ کا دیگر حصہ لاجوردی ٹائیلوں سے بنا ہے۔ اس کا ڈیزائن ویلر نے اپنی کتاب Five Thousand Years of Pakistanمیں دیا ہے۔ قلعہ میں ایک گیلری ہے جو برجوں کو باہم ملاتی ہے ۔گیلری کے بڑے حصے کی چھت اخروٹ کی لکڑی سے بنی ہے مگر ایک جگہ سنگ مرمر کی موٹی سلیب لگائی گئی ہے اور قلعہ کو تمام جنگی ہتھیاروں کے استعمال کو مدنظر رکھ کر بنایا گیا ہے ۔قلعہ میں داخل ہونے کے لیے موری گیٹ کا راستہ استعمال کیاجاتا ہے جو پرانی جی ٹی روڈ کے عین سامنے واقع ہے اوریہ 1830ء میں تعمیر ہوا۔اس کے علاوہ چار اور داخلی دروازے ہیں جنہیں لاہوری گیٹ، دہلی گیٹ، واٹر گیٹ کے نام دیئے گئے ہیں، لاہوری گیٹ پرانا دروازہ ہے۔ زیادہ تر سپاہی یہی دروازہ استعمال کرتے۔ قلعہ کے اوپر اور نیچے کی جانب راستہ دہلی گیٹ سے جاتا ہے۔ اس طرف سامعین کا ایک بہت بڑا ہال ہے۔ قلعہ کے اوپری حصہ میں بیگم حمام یا عورتوں کے لیے ترکی طرز کا حمام سیا حوں کے لیے دلچسپی کا باعث ہے۔ حمام کی تعمیرترک سٹائل میں مغلوں کا ایک خاصہ ہے۔ حمام سے پہلے ایک داخلی ہال ہے اور چھوٹے چھوٹے کمرے ہیں اور خوبصورت مزین ستون دعوت نظارہ دیتے ہیں۔ داخلی ہال میں عورتوں کے لیے سردی اور گرمی کے لیے مخصوص کمرے ہیں۔ دوہری دیوار آج بھی دکھائی دیتی ہے جہاں پانی گرم کرکے بھاپ مہیا کی جاتی تھی۔ یہاں سے گزرتے ہوئے سیاح مغلوں کے روایتی انداز تعمیرکی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ایک خفیہ سرنگ اس حصہ سے لاہوری گیٹ کی جانب جاتی ہے جو زیرزمین ہال تک چلی جاتی ہے جہاں بیگمات شاہی آرام کیا کرتیں ۔ قلعہ کے نچلے حصے میں ایک سڑک پر روشنی کا نظام مہیا کیا گیا ہے۔ آہنی راڈوں سے مزین دہلی اور کابلی دروازے جو مست ہاتھیوں کے حملوں کی روک تھام کے لیے بنائے گئے تھے، انتہائی دلچسپ ہیں۔ واٹر گیٹ کچھ عرصہ سے بند پڑاہے۔ اس قلعہ کے متعلق بہت سی کہانیاں مشہور ہیں۔ پہلی تین صدیوں تک یہ شمالی حملہ آوروں کے راستے کی رکاوٹ رہا۔ 1848ء میں سکھوں سے قلعہ جان نکلسن نے حاصل کیا اور لیفٹیننٹ ہربرٹ نے مسلم افواج کے ذریعے اس پر قبضہ کیا۔ قلعہ کی شمالی طرف اور دریا کے بائیں کنارے بیگم کی سرائے عمارت موجود ہے جسے شہنشاہ جہانگیر نے ملکہ نورجہاں کی خواہش پر تعمیر کروایا۔ بیگم کی سرائے کا صحن 331مربع فٹ اور تین محرابوں والی چھوٹے گنبدوں سے آراستہ مسجد سے متصل ہے۔ صحن کے اطراف میں رہائشی کمرے بنے ہیں اور اس کے چاروں کونوں میں پتھر کے مینار ایستادہ ہیں۔ یہ صحن مغلوں کے لیے راستے میں سستانے کی جگہ تھا جب وہ واہ باغ کی طرف سفر کرتیں تو یہاں منزل کرتیں۔ سرائے کے مغربی حصہ میں کنواں ہے جہاں سے خفیہ سرنگ دریا تک جاتی ہے جہاںسے دو اور سرنگیں نکلتی ہیں ۔ 1883ء تک یہاں کشتیوں کا پل تھا۔ 1880ء میں شروع ہونے والا پل 1883ء میں مکمل ہوا جو آج صوبہ خیبرپختونخواکو پنجاب سے ملاتا ہے۔

No comments

Ads Place