Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

Hover Effects

TRUE

Pages

{fbt_classic_header}

Header Ad

LATEST:

latest

Ads Place

Captain Asfandyar Bukhari Attock

اسفند یار کی حکمتِ عملی(محمد ظہیر قندیل)  ایف ایف الیونجیسی دلیریونٹ دو سال تک وزیرستان کے اس سنگلاخ علاقے میں اپنی شجاعت اور بہادری کی داست...

اسفند یار کی حکمتِ عملی(محمد ظہیر قندیل)

 ایف ایف الیونجیسی دلیریونٹ دو سال تک وزیرستان کے اس سنگلاخ علاقے میں اپنی شجاعت اور بہادری کی داستانیں تحریر کرتی رہی۔ اس دوران کئی بار دشمنوں نے اپنے نجس ارادوں کو تکمیل کی منزل دکھانے کی کوشش کی مگر ہمیشہ منہ کی کھائی۔ یوں تو بزدلوں اور مکاروں کی طرح چھپ کر اس دشمنِ دین و ایماں نے کئی بار حملے کیے لیکن دو بدو مقابلہ صرف ایک بار ہوا۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ مخبر نے مطلع کیا کہ تقریباً 75 سے80دہشت گرد گِدھ حملے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ ان میں ازبک کثرت سے ہیں جو بہت خطرناک اور تربیت یافتہ حملہ آور ہوتے ہیں۔ ان ناگوں کا سر کچلنے کے لیے دوسری یونٹ نے جانا تھا اور اس نے ایف ایف الیون سے کوَّرمانگا۔ اب سوال یہ پیدا ہو گیا کہ کَوَّر کون دینے جائے؟ کرنل سجاد سی او نے یہ سوال سب کے سامنے رکھا، جھٹ اسفندیار بول اٹھا،’’سر! مجھے حکم دیجیے، میں جاؤں گا۔‘‘ اس کی اس بات سے باقی حاضر افسروں کو یک گونہ اطمینان ہو گیا اور کرنل سجاد نے اسفندیار کی بات کو رد نہیں کیا اور کہا،’’او کے! اسفندیار! آپ اپنی پوری تیاری کریں۔‘‘

اسفند یار اپنے گیارہ ساتھیوں کے ہم راہ رات کو نکلا اور یہ دستہ صبح کو وہاں پہنچ گیا جہاں سے کور دینا تھا۔ یہ ایک پہاڑی کی چوٹی تھی۔ وہاں جا کر اسفند یار نے اپنے جاں نثاروں کو مورچے کھودنے کا حکم دیا۔ صوبے دار دل نواز نے کہا:’’سر! رات بھر کے سفر سے تھک چکے ہیں ذرا آرام نہ کر لیں۔ہم نے ویسے بھی یہاں صرف تین گھنٹے ہی تو ٹھہرنا ہے۔‘‘ اسفندیار نے صوبے دار صاحب کو جواباًکہا:’’صاحب! معاملہ دو تین گھنٹوں کا نہیں، معاملہ دفاع کا ہے۔ جہاں بھی جائیں سب سے پہلے اپنے دفاع کا سوچیں، آپ خود محفوظ ہوں تبھی آپ دشمن کو غیر محفوظ کر سکتے ہیں،آپ کو یاد ہوگا ایک بادشاہ کا قصہ جس نے حملہ کر کے بہت سا علاقہ فتح کر لیا اور فتح کا جشن منانے لگا۔ یوں وہ دفاع سے غافل ہوا ہی تھا کہ شکستوں سے چور دشمن کی فوج زخمی شیر کی طرح پل پڑی اور بادشاہ اپنی غفلت اور دفاع کی کم زوری کے باعث جیتی ہوئی جنگ ہار گیا۔لہٰذا ہمیں کسی لمحے غفلت کا مظاہرہ نہیں کرنا۔‘‘ بہر حال انھیں آدھا گھنٹا آرام کے لیے دے دیا گیا۔ اس کے بعد مورچے کھودے گئے جس میں خود اسفند یار نے بھی حصہ لیا۔ جب مورچے تیار ہو گئے تو اسفندیار کو کسی حد تک سکون ہوا۔ اپنے تین ساتھیوں سے کہا کہ عقبی حصے کی حفاظت ان کی ذمہ داری ہے۔باقی جوانوں کو مختلف مقامات پر چوکس اور چوکنا رہنے کی تنبیہہ کی۔ اب سب اس یونٹ کے منتظر تھے جس کو کوَّر دینا مقصود تھا۔ وہ یونٹ تو نہ آئی البتہ دہشت گرد آگئے۔ اتنے میں وائر لیس کے ذریعے اسفند یار کو ہیڈ کوارٹر سے واپس آنے کا کہا گیا۔ اسفندیار نے جواب دیا:’’کیسے آ جائیں؟ دہشت گردوں نے ہمیں ہر طرف سے گھیر لیا ہے اور اب ہم ان کے نرغے میں آنے والے ہیں ان کا گھیرا تنگ ہوتا جارہا ہے۔ یہاں سے نکلنا محال ہو گا۔ ہمیں فضائی مدد درکار ہوگی۔‘‘ جواب میں معلوم ہوا کہ ہیلی کاپٹر دستیاب نہیں ہے۔ اب صورتِ حال بہت نازک ہو چکی تھی۔دہشت گرد بار بار اسپیکر پر اعلان کر رہے تھے کہ آپ لوگ ہر طرف سے گھیرے جا چکے ہیں۔ اپنے ہتھیار پھینک دیں اور نیچے آ جائیں۔ ہم آپ کو کچھ نہیں کہیں گے، صرف آپ کے بدلے اپنے قیدی آزاد کروائیں گے۔

تمام سپاہیوں کے چہروں پر مایوسی اور بے یقینی کے گھنے سائے تھے، کسی نے دبے لفظوں مشورہ دیا کہ ان کی بات مان لینی چاہیے۔ یہ وقت اسفند یار کے لیے بہت کٹھن تھا۔ اس نے نوشتۂ دیوار پڑھ لیا تھا۔ اس مشکل ترین وقت میں بھی اس نے چہرے پر ایک بشاشت طاری رکھی اور سپاہیوں پر کسی قسم کی گھبراہٹ اور اضطراب آشکار نہ ہونے دیا۔اس نے ان سے اس وقت ایک مختصر قائدانہ خطاب کیا: ’’جوانو! گھبرانا مت! موت اور زیست اللہ کے ہاتھ ہے۔ اللہ چاہے تو ہم یہاں سے نکل سکتے ہیں، اللہ چاہے تو ہمیں اس سے بڑا رتبہ بخش سکتا ہے اور وہ ہے شہادت کا۔ اب ہمارے پاس دو راستے ہیں ایک ہم ہتھیار پھینک دیں اور اپنے آپ کو ان جہنمی کتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں، دوسرا راستہ ہے ہم اپنے آپ کو اللہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں، جو یقیناً نہایت رحیم و کریم ہے۔ پہلے راستے میں یہ ہماری گردنیں کاٹ کر اس کی فلمیں بنا لیں گے اور انھیں دہشت پھیلانے کے لیے استعمال کریں گے۔دوسرے طریقے میں ہم سب بہادروں کی طرح لڑیں گے زندگی ہوئی تو اللہ ہمیں بچا لے گا اور اگر اسے منظور ہوا تو وہ ہمیں اس بلند تر مقام بخشے گا، اس لیے میرا فیصلہ ہے ہم ان خارجیوں سے بہادری کے ساتھ لڑیں اور شہادت سے قبل کم از کم تیس چالیس درندوں کو جہنم واصل کر دیں۔ موت نے تو اب آنا ہی آنا ہے کیوں نہ اس شان سے مریں کہ جنت کے فرشتے ہمارے استقبال کے لیے قطار اندر قطار کھڑے ہوں۔‘‘

اسفند یار کی اس تقریر نے جوانوں کے منتشر عزائم کو یکجا کر دیا۔ خوف کے بادل چھٹ گئے۔ حوصلے جواں ہوگئے۔ ولوے تازہ ہوگئے، جوش اور جنون عروج پر آگئے۔وہ سب یک زبان ہو کر بولے،’’ہم آخری سانس تک ان سے مقابلہ کریں گے۔‘‘ عین اسی وقت ایک دہشت گرد عقب سے آیا جو جوانوں کی عقابی نگاہ سے بچ نہ سکا۔ چشم زدن میں اسے راہِ جہنم کا مسافر بنا دیا گیا۔ اس کے بعد خارجیوں کی جانب سے گولیوں کی بوچھار ہو گئی، مجاہدینِ پاک نے مورچے سنبھال لیے۔ اور جوابی فائرنگ کا آغاز کر دیا۔ اسفندیار کے قریب سے کئی گولیاں اسے تقریباً چھوتے ہوئے گزر گئیں۔ ایک گولی اسفند کی گھڑی کو آٹکرائی جس سے اس کا شیشہ ٹوٹ گیا۔ یہ گھڑی اسفندیار نے سنبھال کر رکھ لی جو اب بھی ڈاکٹر فیاض بخاری کے پاس اسفندیار کی یادگار کے طور پر محفوظ ہے۔ 

کچھ دیر بعد اسفند یار نے اپنے جوانوں کو فائر بندی کا حکم دیا، جوانوں کو احساس ہو چکا تھا کہ اگر وہ مورچے نہ بنائے جاتے جس میں اب وہ محفوظ تھے تو کیا انجام ہوتا۔ جب پاکی چیتوں کی جانب سے فائر رکا تو دہشت گردوں نے بھی فائر روک دیا۔انھوں نے اسپیکر پر اعلان کیا:’’آپ ہمارے گھیرے میں ہیں، بہتر یہ ہے کہ آپ لوگ ہتھیار پھینک دیں اور نیچے آ جائیں۔‘‘ جواب میں اسفند یار نے ایک بلند آواز سپاہی کو کھڑا کیا جس نے اونچی آواز میں کہا:’’ہمارے پاس اسلحہ بہت کم ہے، ہم آپ کا مقابلہ نہیں کر سکتے، ہمیں محفوظ انداز میں جانے کا راستہ دیا جائے۔ ہم آپ کو کچھ نہیں کہیں گے۔‘‘ اسی طرح دونوں جانب سے اعلانات ہوتے رہے۔ نہ وہ اوپر آئے اور نہ یہ نیچے گئے۔وقت گزرتا رہا، بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔اسفند یار کا وقت گزارنے کا حربہ تھا جو کامیاب ہو رہا تھا۔ اچانک دشمنوں نے فائرنگ شروع کردی۔ اسفندیار نے جوابی فائرنگ سے منع کردیا۔ خارجی فائرنگ سے اسفند یا ر کا ایک سپاہی تاج محمد شدید زخمی ہو گیا، گولی اس کے دائیں رخسار پر لگی اور بائیں رخسار سے نکل گئی، خون کا ایک فوارہ پھوٹ پڑا۔ وہ لڑکھڑاکر گر پڑا۔ اسفندیار نے بھاگ کر اسے گود میں لے لیا اور ساتھیوں سے فوری طبی امداد دینے کا حکم دیا۔ اس کی حالت ذرا سی بہتر ہوئی تو سپاہیوں نے دیکھا کہ دہشت گر داوپر کی طرف بڑھے چلے آ رہے ہیں۔ اسفند یار نے ہاتھ کے اشارے سے اپنے سپاہیوں کو خاموش رہنے کو کہا، پاک آرمی نے انتہائی صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا۔ اسفند مستقل طور پر ان کی حوصلہ افزائی کرتا رہا۔ جب دشمن نے یہ دیکھا کہ ان پر فائرنگ نہیں کی جارہی تو اس کے حوصلے بڑھ گئے اور وہ مزید قریب آنے لگا۔ جب دشمن پاک فوج کی زد میں آگیا تو پھر اچانک اسفندیار نے فائر کھولنے کا حکم دے دیا۔ اب دہشت گردوں کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا، دیکھتے ہی دیکھتے ان کے بہت سے ساتھی دوزخ کا ایندھن بنتے گئے۔ وہ اس اچانک افتاد سے سنبھل نہ سکے۔ وہیں پر اپنے ساتھیوں کو تڑپتے اور مرتے چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس طرح ان کا گھیرا بھی ٹوٹ گیا اور ان کے متعدد ساتھی زخمی بھی ہوئے۔ 

اسفند یار نے جوانوں کو شاباش دیتے ہوئے کہا:’’میرے غیور ساتھیو! تم نے دلیری کی وہ مثال قائم کی ہے، جس سے ٹیپو اور ابنِ قاسم کی روحیں مطمئن ہو گئی ہوں گی۔ آج خالد بن ولیدؓ اور عبیدہ بن جراحؓ کو تم پر ناز ہوگا۔ مگر دوستو! یاد رکھو ابھی اپنے آپ کو محفوظ مت جانو۔دشمن مثلِ روباہ چالاک ہے، وہ گھنٹے دو گھنٹے میں دوبارہ زیادہ تعداد اورشدت سے حملہ کرے گا۔ اس لیے آپ لوگ یہاں سے نکلیں اور زخمی تاج محمد کو ساتھ لے جائیں۔ آپ لوگوں نے نالے کی جانب سیدھے کوچ کرنا ہے۔ اگر آپ لوگ نالے تک پہنچ جاتے ہیں تو آپ محفوظ ہوں گے۔ یہاں دو آدمی رہیں گے اور دشمن کو لاشیں اٹھانے کا موقع نہیں دیں گے۔ وہ مسلسل ان پر گولیاں برسائیں گے تاکہ انھیں علم نہ ہو سکے کہ کتنے افراد پیچھے ہیں۔ صوبے دار دل نواز اور ایک نائیک نے کہا کہ ہم پیچھے رہتے ہیں۔ اس پر اسفندیار نے کہا: ’’نہیں! مجھے صرف ایک بندہ چاہیے۔ ایک میں ہوں گا۔‘‘ پھر اسفند نے نائیک کو اپنے ساتھ رکھا اور باقی سب کو کوچ کا حکم دیا۔ انھیں پس و پیش کی مگر اسفند یار نے سختی سے کہا،’’جلدی کرو اور جاؤ! وقت کم ہے اور تم جلد از جلد نالے میں پہنچو اور تاج محمد کا خاص خیال رکھنا۔۔۔ یہ ہمارا زخمی شیر ہے۔‘‘ تقریباً آدھ گھنٹے بعد کپتان اسفند یار کو وائرلیس پر پیغام موصول ہوا کہ وہ سب بہ خیریت نالے میں پہنچ گئے ہیں۔ اس دوران دہشت گردوں کے کچھ ساتھیوں نے لاشیں اٹھانے کی کوشش کی تو اسفند یار اور اس کے ساتھی نے فائرنگ سے انھوں مار بھگایا جس کے بعد کسی کو ادھر آنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ تب اسفندیار اپنے ساتھی کے ساتھ مورچوں سے نکلا اور نالے میں اپنے ساتھیوں سے جا ملا۔ دشمن اپنے زخم چاٹ رہا تھا، خوف کے مارے اسے دوبارہ وہاں جانے کی توفیق نہیں ہوئی۔ وہ سمجھتا رہا کہ دشمن کی بہت بھاری فوج اس پہاڑی پر اب بھی موجود ہے۔ جب کہ اسفندیار کا قافلہ فتح کے شادیانے بجاتا اپنی یونٹ میں بہ حفاظت لوٹ آیا۔ کرنل سجاد نے آگے بڑھ کر اپنے اس بہادر ہیرو کو گلے سے لگا لیا جس کی حکمتِ عملی نے مکار و بدکار، سازشی دشمن کو بری طرح شکست دی تھی۔ اور سوائے تاج محمد کو کسی کو خراش تک نہیں آئی تھی۔ جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے، سچ ہے لیکن اس قول کو اللہ تعالیٰ نے اسفندیار کی قابلِ تحسین دفاعی منصوبہ بندی کے ذریعے حقیقت کی صورت بخشی۔

 

No comments

Ads Place