ٹاور کی تعمیر ایک تھکا دینے والا عمل تھا۔ا س کی تعمیر کے بعد جوانوں نے یہ سمجھا کہ اسفند صاحب دیوار والی بات بھول چکے ہوں گے اور اسی ٹاور پر...
ٹاور کی تعمیر ایک تھکا دینے والا عمل تھا۔ا س کی تعمیر کے بعد جوانوں نے یہ سمجھا کہ اسفند صاحب دیوار والی بات بھول چکے ہوں گے اور اسی ٹاور پر اکتفا کریں گے۔ٹاور کی تکمیل سے جوان فارغ ہوئے تو دو دن بعد پھر انھیں اسفندیار نے اکٹھا کیا اور کہا،’’میرے مضبوط جوانو! تم نے ٹاور بنا کر اس ملک و قوم پر ایک احسان کیا ہے، اس کے لیے تمھیں جتنی شاباش دی جائے کم ہے، مگرجوانو! اصل کام ابھی کرنا ہے۔ اور وہ ہے آپ کی حفاظت کی دیوار کی تعمیر، جیسے دیوارِچین، چین کے دفاع کے لیے بنائی گئی تھی ایسے ہی میں نہیں چاہتا کہ دشمن ہمیں باآسانی روند کر چلا جائے۔ اس کے لیے ہمیں شب و روز محنت کرنا ہوگی۔ اپنا یہ ہدف پانا اگرچہ بہت مشکل ہے مگر لوگوں کو ہم نے دکھانا ہے کہ ہم زندہ قوم ہیں اور اپنے ملک کی حفاظت کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ تو پیارے بھائیو اٹھو! اور اس دیوار کی تعمیر کر کا ایک انوکھا کام کر ڈالو۔‘‘ جوانوں میں سے ایک دو نے کہا،’’سر! ٹاور کافی نہیں ہے؟‘‘ اسفند نے کہا:’’بالکل نہیں! دشمن اگر زیادہ تعداد میں آئے تو آپ اپنی حفاظت کیسے کریں گے؟آپ لوگ تیس چالیس ہیں اگر وہ ہزاروں کی تعداد میں آگیا تو کئی ہزار سپاہیوں کا کام ہماری دیوار کرے گی۔ آپ کا ایک ہی جوان اس دیوار کے پیچھے سے بیسیوں آدمیوں کا مقابلہ کر سکے گا۔‘‘ ایک اور جوان نے کہا۔’’لیکن سر! دیوار بنے گی کیسے؟ پتھر کہاں سے آئیں گے؟‘‘اسفندیار نے ایک عزم کے ساتھ جواب دیا:’’اس کا حل بھی میں نے سوچ لیا ہے،ہم پوسٹ تک پہنچنے کے لیے مشکل اور تنگ راستو ں سے گزر کر آتے ہیں۔ ہم اسی راستے کو کھلا کریں گے اور وہاں سے بڑے بڑے پتھر جو نکلیں گے انھیں اٹھا کر یہاں لائیں گے اور دیوار میں لگا دیں گے۔ یوں راستا بھی بن جائے گا اور دیوار بھی۔‘‘
دیوار کی تعمیر کا کام جوانوں کو ایک دیوانے کا خواب لگ رہا تھا۔ مگر وہ دیوانہ اسفندیار جیسا ہو توخواب تعبیر بھی بن جاتا ہے۔ اسفندیار نے جوانوں سے کہا، ’’دیوار کی تعمیر کا عمل رات کو ہوگا۔ دن کو پہاڑوں کا سینہ چیر کر ان سے پتھر نکالنے کا کام کرنا ہو گا۔ پھر ان پتھروں کو کندھوں پر اٹھا کر پوسٹ تک پہنچانا ہوگا۔‘‘ اگلے دن اسفند یار خود بھی جوانوں کے ساتھ اس کام میں جت گیا۔ پھر کسی نے کوئی محمود دیکھانہ کوئی ایاز دیکھا۔عام مزدور کی حیثیت سے وہ جانباز دیکھا۔ کمانڈر کا جو یہ انداز دیکھا، تو سب جوانوں نے اپنے اندراک شہباز دیکھا، جس کا کام پلٹنا، جھپٹا اور پلٹ کر جھپٹنا تھا۔
لیکن اے شہباز، یہ مرغانِ صحرا کے اچھوت
ہیں فضائے نیلگوں کے پیچ و خم سے بے خبر
ان کو کیا معلوم اس طائر کے احوال و مقام
روح ہے جس کی دم پرواز سرتاپا نظر
کام، طویل اور صبر آزما تھا، قدم قدم پر شکستگیِ دل کا دھڑکا، خوف و بیم کی تلوار سر پر لہرا رہی تھی، کچھ جوانوں نے اس مشقت کو لاحاصل قرار دے دیا لیکن کمانڈر کی حکم عدولی بھی نہیں کر پا رہے تھے۔ آپس میں وہ فقرے چست کر رہے تھے کہ’’یہاں سے موٹر وے گزرے گی اور سب دیوارِ چین دیکھنے جائیں گے۔‘‘ جوان اس ناممکن عمل سے خفا بھی ہوئے اور تنگ بھی آئے مگر اسفند یار کو اپنے شانہ بشانہ خود مزدوری کرتادیکھ کر شرمسار بھی ہوئے۔ ایک دن ان کے صبر کا پیمانہ لب ریز ہو گیا اور بولے،’’سر! یہ تو اچھا خاصا عذابِ الہٰی ہے۔ ہم دشمن کی گولیوں سے تو بچ جائیں گے لیکن پتھروں کی تیز دھاروں سے ضرور شہید ہو جائیں گے۔‘‘ لانس نائیک سہیل نے، جسے اسفند یارکا چہیتا سمجھا جاتا تھا، آ کر کہا،’’سر! زیادہ تر جوان آپ سے بہت ناراض ہیں۔ اس دیوار کے خیال کو دل سے نکال دیں سر!‘‘ اسفند نے اسے جواب دیا:’’سہیل امجد! جوانوں سے کہو، کام چھوڑ دیں، ابھی میں آتا ہوں اور میرے سامنے دل کھول کرمجھے برا بھلا کہیں، میں ہر بات برداشت کر لوں گا لیکن یہ کبھی برداشت نہیں کروں کہ دشمن ہمیں قربان کرتا ہوا آگے بڑھے اور ہمارے بچوں کو، اہلِ وطن کو،تر نوالا بنالے۔ اس ملک کے دفاع اور آپ سب کی آزادی، امن اور سکون کے لیے یہ دیوار انتہائی ضروری ہے۔‘‘ سہیل نے جا کراسفندیار کے کلمات جوانوں کو من و عن بتا دیے۔ تھوڑی ہی دیر میں سب لوگ معافی کی درخواست لیے اسفندیار کے سامنے کھڑے تھے۔
No comments