اباسین تقریباً پانچ لاکھ مربع میل پہاڑی علاقہ کے برف و باراں سے دریائی شکل اختیار کرلیتا ہے جو وہاں سات مہینے تک برستے رھتے ہیں پھر سورج کی ...
اباسین تقریباً پانچ لاکھ مربع میل پہاڑی علاقہ کے برف و باراں سے دریائی شکل اختیار کرلیتا ہے جو وہاں سات مہینے تک برستے رھتے ہیں پھر سورج کی تمازت سے یہ بر ف پگھل کر اسے ایک مست گھوڑے یعنی سندھو کی شکل دے دیتی ہے۔ آغا شہباز علی چھچھ نامہ میں اباسین کی تعریف یوں کرتے ہیں۔
شما ل و غرب چھچھ میں ساحل نیلاب ہے یک سر کہ ٹکراتی جہاں سرموجۂ سیماب ہے اکثر
طلوع مہر ہو تو زرفشانی دیکھئے اس کی تلاطم دیکھئے اس کاروائی دیکھئے اس کی
یہی سندھ ہے یہی انڈس یہی نیلاب ہے اپنا ہے نازاں اس پہ سرحد سندھ اور پنجاب ہے اپنا
کبھی دریائے ہند کہتے رہے اہل عرب اس کو بہت پر شور پاتے تھے بہت ہی پر شغب اس کو
اباسین ہے یہی اٹک بھی کہلاتا ہے یہ دریا ہاں کہساروں سے ٹکراتا ہے بل کھاتا ہے یہ دریا
بت تبت ہے اس جیسا نہیں خوب رو کوئی ہمالہ زاد ہے ایسا نہیں ہے تند خو کوئی
نہیں بے یارو ناصر معاون بے شمار اس کا یہ خود ہے زرفشاں اور ہیں کنارے زرنگار اس کے
گر اتریں پار تو اضلاع مردان و پشاورہیں سدا اٹھتے جہاں کی خاک سے مرد دلاور ہیں
علاقہ ہے سمہ کا اور یہ بولاق نامہ کا ہے جن کے ذکر سے رقصاں ہواہر اثر خامہ کا
جناب صابر مٹھیالوی نے دریائے سندھ کے بارے میں ایک نظم کہی ہے جس کا ایک قطعہ بطورنمونہ یہاں درج کیا جاتا ہے
نہایت اونچے پربت سے نکل کرآرہا ہے تو ترنم خیز طوفا ن ساتھاپنے لا رہا ہے تو
زمین خشک پر شادابیاں پھیلا رہا ہے تو چمن زاروں کو گل کے پیرہن پہنا رہا ہے تو
یہی جی چاہتا ہے تیرے نظاروں میں کھو جاؤں
تريکیف آوریں جنت میں میٹھی نیند سو جاوں
دریاے اٹک کو بطورسیاسی استعارہ استعمال کرتے ہوے مارچ ۱۹۳۸ میں مولانا ظفر علی خانؒ نے ریلوے اسٹیشن کیمبل پور پر چند اشعار فرماے۔
میرے آگ ہیں اٹک کی موج ہائے رنگ رنگ ہیں نشہ جن کی روانی میں شراب ناب کا
غر ق جن میں ہو رہے ہیں چھچھ کے سب رجعت پسند اولین حق کشتی باطل پہ ہے گرد اب کا
دیگر بیشمار فوائد حاصل کرنے کے علاوہ موجودہ دور تک چھچھ میں نیارئے (کیری گر) دریائے سند ھ کے کنارے ریت سے سونانکالا کرتے تھے چونکہ اس کی مقدار نہایت تھوڑی ہوتی ہے اور محنت زیادہ کرنی پڑتی ہے لہذا یہ کام متروک ہو گیا ۔ ’’ تاریخ پشاور کے مصنف کے بیان کے مطابق ہندو دریائے سند ھ کو ایک تیرتھ سمجھتے ہیں لیکن انکا عقیدہ ہے کہ 1955 بکرمی تک دریائے گنگا کی پاکیزگی اور برکات جدا ہو کر اس دریا میں آجائے گی اس لئے اس دریا میں نہانے سے انسان گناہ سے پاک ہو جاتا ہے۔ یکم بیساکھ کو ہندو یہاں میلہ منانے آتے تھے اکثر ہندو دریائے سندھ کے پار جانا گناہ سمجھتے تھے 1987 میں ڈاکٹر سید امجد حسین نے نو افراد کی ٹیم کے ساتھ اٹھارہ روز میں خیر آباد کنڈ سے کراچی تک کا فاصلہ طے کیا انہوں نے اپنی موٹر لانچ کا نام یونان مہم جو شاہی لاکس کے نام پرر کھا جس نے ایران کے بادشاہ دارا کے حکم پر ۵۰۰ ق م میں دریائے سندھ کا سروے کیا تھا۔
(ازقلم: سکندر خان)
No comments