Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

Hover Effects

TRUE

Pages

{fbt_classic_header}

Header Ad

LATEST:

latest

Ads Place

Campbellpur To Attock

کل کا کیمبل پور آج کا اٹک  اٹک پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا آخری شمالی شہر ہے جو انگریز سرکار کے ایک افسر مسٹر کیمبل نے سن انیس سو چار...

کل کا کیمبل پور آج کا اٹک

 اٹک پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا آخری شمالی شہر ہے جو انگریز سرکار کے ایک افسر مسٹر کیمبل نے سن انیس سو چار میں کیمبل پور کے نام سے آباد کیا تھا۔دریائے سندھ کے بائیں کنارے جہاں ایک سو سال پرانا شہر اٹک موجود ہے وہاں تھوڑے ہی فاصلے پر ’اٹک خورد‘ یعنی چھوٹا اٹک کے نام سے ایک گاؤں اس کہیں پہلے وجود رکھتا ہے۔اس شہر یا چھوٹے سے گاؤں کا نام اٹک کیسے پڑا؟ اس کا جواب جاننے کے لیے مختلف لوگوں سے رابطہ ہوا تو ایک روایت بظاہر مستند لگی۔ پروفیسر انور جمال نے مختلف کتابوں اور بزرگوں سے سنی ہوئی روایت کے حوالے سے بتایا کہ ماضی میں جب حملہ آور آتے تھے تو انہیں دریائے سندھ کی وجہ سے رکنا پڑتا تھا مقامی زبان میں رکاوٹ کو ’اٹک‘ بھی کہتے ہیں اور جب بھی کسی قافلے کو اٹک پڑتی تھی تو اس وجہ سے اس جگہ کا نام اٹک پڑ گیا۔انہوں نے بتایا کہ سولہویں صدی میں جب مغل بادشاہ اکبرِ اعظم نے دریائے سندھ کے بائیں کنارے پر جب قلعہ تعمیر کرایا تو اس کا نام بھی اٹک قلعہ رکھا تھا۔ اس تاریخی قلعہ میں ان دنوں پاکستان کے ’سپیشل سروسز گروپ‘ یعنی کمانڈوز کا ہیڈ کوارٹر قائم ہے۔

اس قلعہ میں سابق فوجی صدر ضیائالحق کے خلاف مبینہ طور پر بغاوت کے مقدمے سمیت بینظیر بھٹو کے خلاف مبینہ سازش کرنے والوں کے خلاف مقدمات چلائے گئے۔ سابق وزیرِاعظم نواز شریف بھی اس قلعہ میں قید رہے اور پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات کی سماعت بھی اسی تاریخی قلعہ میں ہوتی رہی۔دریائے سندھ پاکستان کے دو صوبوں پنجاب اور سرحد کو اٹک کے مقام پر تقسیم کرتا ہے اور اس مقام پر ہی دریائے کابل اس میں شامل ہوتا ہے۔ دونوں دریاؤں کے سنگم سے کافی آگے تک دونوں دریاؤں کے پانیوں کے رنگ بھی مختلف دکھائی دیتے ہیں۔

دریائے سندھ پر اٹک کے مقام پر مختصر فاصلوں پر تین پل تعمیر کیے گئے ہیں ہیں اور سندھو دریا کو پار کرنے کے لیے اب کسی کو رکاوٹ یا اٹک نہیں ہوتی۔ ویسے بھی دریا کا آج کل وہ زور نہیں رہا ہے جو پچاس برس پہلے ہوتا تھا، کیونکہ اب اس مقام سے اوپر تربیلا ڈیم بن چکا ہے۔انگریزوں کے بنائے ہوئے شہر اٹک کی سڑکیں اور گلیاں کشادہ ہیں۔ تا حدِ نظر سیدھی نظر آنے والی گلیاں اس دور کی منصوبہ بندی کا پتہ دیتی ہیں۔ بعد میں شہر میں ہونے والی توسیعی آبادیوں میں جانے سے واضح طور پر فرق نظر آتا ہے کہ منصوبہ بندی کے ایک سو سالہ پرانے اصولوں کو بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے۔ اندرون شہرگھومنے کے بعد احساس ہوا کہ شاید ہی کوئی بڑی سڑک ہو جس پر گڑھینہ پڑے ہوں۔جنگی اہمیت اور ہیت کے اعتبار سے ضلع اٹک کی خاصی اہمیت ہے اور پروفیسر انور جمال کہتے ہیں کہ انگریز سرکاری نے اپنے توپ خانے کے لیے اس علاقے کو ہی چنا تھا اور بعد میں پاکستان فوج نے بھی انگریز افواج کے فیصلے پر عمل جاری رکھا ہوا ہے۔

اٹک ضلع کی زمین بارانی ہے اور تمباکو، مونگ پھلی، گندم اور دیگر فصلوں کا دارومدار بارشوں پر ہی ہے۔ اس اعتبار سے کافی عرصے سے یہاں کے لوگوں کا زیادہ تر ذریعہ معاش فوج کی نوکری ہی رہا ہے، چاہے وہ انگریز کی فوج ہو یا پاکستان کی۔پروفیسر نے مزید بتایا کہ ضلع اٹک کی تحصیل چھچھ کے لوگ ہانگ کانگ، یورپ اور دنیا کے دیگر ممالک چلے گئے اور یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ خاصے امیر ہیں اور ضلع بھر میں اہم جائیدادوں کے مالک بھی۔ضلع اٹک کی ایک اور اہم تحصیل حسن ابدال ہے جہاں سے موجودہ وزیراعظم شوکت عزیز ضمنی انتخابات جیتے تھے۔ حسن ابدال میں سکھ مذہب کے پیروکاروں کے مذہبی پیشوا بابا گرونانک کا دربار ہے جبکہ وہیں پر بابا ولی قندھاری کا مزار بھی ہے۔ مقامی لوگ پرانے زمانے کی ایک روایت کے حوالے سے کہتے ہیں کہ جب گرونانک نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاکر پانی مانگا تو سامنے بڑی پہاڑی پر بیٹھنے والے ولی قندھاری نے ایک پتھر پھینکا اور زمین پر جس جگہ وہ پتھر گرا وہاں سے چشمہ پھوٹ نکلا۔اس روایت کے مطابق بابا گرونانک نے اس پتھر کو ہاتھ کے اشارے سے ہٹایا اور آج تک اس جگہ سے چشمہ جاری ہے۔ ہر سال سکھ اس چشمے کے پانی سے نہاتے ہیں۔ ہر سال تیرہ اپریل کو بیساکھی کے میلے کے موقع پر دنیا بھر سے سکھ مذہب کے لوگ یہاں جمع ہوتے ہیں۔پروفیسر انور جمال نے بتایا کہ اٹک میں کراچی کے سیٹھ داؤد نے گرم کپڑا تیار کرنے کی مل لگائی جس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ’ایروناٹیکل کمپلیکس‘ تعمیر ہوا۔ جس میں راڈار اور لڑاکا طیاروں کی فیکٹریاں شامل ہیں۔ان صنعتوں کی وجہ سے مقامی لوگوں کو فوج کے علاوہ بھی روزگار کا موقع ملا۔اٹک شہر میں گورنمنٹ کالج سن انیس سو چوبیس میں قائم ہوا تھا۔ چند طلباء سے جب ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ اب جہاں تعلیم کا معیار خراب ہے وہاں ہاسٹل دو برس سے بند ہے اور بیشتر طلباء کرایے کے مکانوں میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔مقامی کالج کی لیکچرار کرن ملک نے بتایا کہ علاقے کے لوگوں میں پہلے ایک رواج رہا کہ میٹرک یا انٹر میڈیٹ کی سند حاصل کرتے اور فوج میں بھرتی ہوجاتے لیکن ان کے مطابق اب جہاں علاقے کے لڑکے شہر سے باہر اعلیٰ تعلیم کے لیے جاتے ہیں وہاں لڑکیوں کے دیگر شہروں میں تعلیم حاصل کرنے پر بھی اعتراض نہیں کرتے۔ضلع اٹک کے بیشتر باسیوں کی مادری زبان تو پنجابی ہے لیکن اس میں ہندکو کا لہجہ حاوی دکھائی دیتا ہے۔ ضلع میں پشتو زبان بولنے والوں کی آبادی بھی قابل ذکر ہے۔پروفیسر انور جمال نے بتایا کہ تقریبا پچیس برس قبل اس شہر کا نام کیمبل پور سے تبدیل کرکے اٹک تو رکھ دیا گیا لیکن علاقے کی ثقافت اور مقامی موسیقی پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ زمانہ بدل گیا ہے اور شہر کے وسطی بازار میں جہاں بھارتی گانوں کی سی ڈیز عام ملتی ہیں وہاں مقامی فنکاروں کے گائے ہوئے ماہیے بھی سننے کو ملتے ہیں۔(اعجاز مہر)

No comments

Ads Place