Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

Hover Effects

TRUE

Pages

{fbt_classic_header}

Header Ad

LATEST:

latest

Ads Place

Chahch Matni Hazro History In Urdu

  چھچھ متنی وادی چھچھ کا جو علاقہ حضرو شہر سے مغرب کی طرف واقع ہے اسے چھچھ متنی کہا جاتا ہے۔ سکھوں کے دور میں اسے علاقہ حویلی بھی کہا جاتاتھ...


 

چھچھ متنی وادی چھچھ کا جو علاقہ حضرو شہر سے مغرب کی طرف واقع ہے اسے چھچھ متنی کہا جاتا ہے۔ سکھوں کے دور میں اسے علاقہ حویلی بھی کہا جاتاتھا،ہوسکتا ہے پہلے پہل اس علاقے میں کوئی مشہور مکان یا حویلی موجود ہو یا پہاڑوں میں گھرا ہونے کی وجہ سے حویلی نام پایا ہو جیسے کہ ضلع ایبٹ آباد کا مشہورشہر حویلیاں ہے اسی علاقہ کو متنی کا نام کس نے اور کب دیا ‘‘ہو تحقیق طلب ہے،’’قصہ المشائخ‘‘ میں رقم ہے کہ متانی قبیلہ کے لوگ یہاں رہتے ہیں اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہاں کے رہنے والے پٹھان عموماً اپنے نام کے ساتھ متنی پٹھان لکھتے ہیں۔’’خلاصۃ الانصاب ‘‘میں نواب حافظ رحمت خان روہیلہ لکھتے ہیں متنی قوم کے لوگ بھی قوم متنی (اولاد بی بی متو دختر حضرت شیخ بیٹن) سے تعلق رکھتے ہیں اور لودھی یا سروانی کی اولاد کی اولاد میں یاد کیے جاتے ہیں۔بحرِ قلزم کے کنارے ایک شہر کا نام متنا ہے جہان بنی اسرائیل کے قبائل بدوباش رکھتے تھے۔وادیِ چھچھ میں دریائے سندھ کے کنارے پٹھانوں کا ایک گاؤں گڑھی متنی کے نام سے مشہور ہے اس گاؤں کے اکثر باشندے اپنے آپ کو لودھی پٹھان کہتے ہیں۔یہ عین ممکن ہے کہ لودھی قوم کی بنا پر ہی گاؤں کا نام گڑھی متنی پڑھ گیا ہو۔جبکہ ’’ قصۃ المشائخ‘‘میں اس موضع کانام حاجی متنی لکھا گیا ہے جو اورنگزیب عالمگیر کے عہد میں مشہور تھا۔کاغذاتِ مال میں یہ بتایا گیا ہے کہ اس موضع کے اردگرد کے علاقہ کی ملکیت ایک خاتون کے پاس تھی،جس کا نام متنہ خانم تھا اسی بنا پر گاؤں کا نام گڑھی متنی پڑھ گیا ۔ہندوستان کے پہلے مسلمان حکمران قطب الدین ایبک کے ایک افغان وزیر کا نام ملک متنی تھا جسے خان عالم کا لقب ملا تھا۔متنی نام کا ایک بہت بڑا قصبہ پشاور شہر کے جنوب مغرب میں واقع ہے جس کی آبادی زیادہ تر خلیل مہمند افغانوں پرمشتمل ہے متنون نام کا ایک علاقہ خوست (افغانستان)میں بھی واقع ہے جس کے رہنے والوں کو متون یا متونے کہتے ہیں۔مشہور تاریخ دان ،’’سٹؤرٹ پگٹ ‘‘اپنی کتاب ’’ہندوستان قدیم میں متنی قوم کے بارے میں پر یوں اظہار خیال کرتے ہیں:۔’’سولہویں صدی قبل مسیح کے شروع میں ایک اور انڈویُورپین قبیلہ کا پتہ چلتا ہے،جو کاسائیٹ حکومت کے شمال مغربی سرحد کی طرف تھا اس قبیلے کا نام متنی تھا ۔متنی دریائے خیبر کے منبع کے اردگرد کے علاقے پر قابض تھے اور ان کی حکومت شام کے بیشترشمالی علاقے پر تھی۔ المتون نامی ایک وادی اور قصبہ بھی یہاں تھا۔ چودھویں اور پندرھویں صدی قبل مسیح میں متنی کے حکمرانوں کے ناموں میں انڈویورپین نام کثرت سے ہیں۔اور اس سفارشی خط و کتابت میں بھی موجود ہیں جو مصر کے الامارہ اور حتی(الیشیائے کوچک )کے دارخلافہ نوغاز کیو کے مابین ہوئی تھی۔یہ خط و کتابت مٹی کے تکونی شکل کے ٹکڑوں پر ثبت تھی،ان سب میں مشہور ترین وہ عہد نامہ ہے جو حتی کے بادشاہ صوبی لولیما  اور متنی کے حکمران متی اوزا پسرِ دسرتہ  کے مابین ہوا تھا۔یہ 1380ق م کے لگ بھگ کی بات ہے اس عہد نامہ میں متنی کے بادشاہ نے اوتاروں کو اپنا گواہ بنایا تھا۔جو مِترا ،وارونا،اندراکے ناموں سے مشابہت رکھتے ہیں قدیم ہندوستانی نا م بھی اسی طرح کے تھے جو متنی دور میں رائج تھے ۔رتھوں کی دوڑ کے بارے میں متنی قوم کے شخص نے اس زمانے میں ایک کتاب لکھی تھی اس شخص کا نام ککولی  تھا ۔افغانستان کے صوبہ لوگر میں متنی قبائل زیادہ تعداد میں ہیں،محمد ایوب خان سدو خیل نے اپنی کتاب ’’کیمبل پور قدیم و جدیدہ‘‘ میں ماہرین آثار قدیمہ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ انجیل مقدس کی بیان کردہ حکومتوں یعنی حتّی اور متنی کے لوگوں کے احوال اور علاقہ چھچھ متنی اور ہٹیاں کے لوگوں کے احوال میں چند چیزیں مشترکہ طور پر پائی جاتی ہیں مثلاً

1:۔’’ حتّی اور متّنی دور کے ناشندے سانڈ  کو پوجتے تھے جبکہ متنی کے باشندے بھی سانڈ پالتے ہیں۔2:۔حتّی اور متنی والے سات کے ہندسے کے ستہ کہہ کر پکارتے تھے چھچھ متنی کے لوگ بھی ایسا ہی کہتے ہیں۔:۔حتّی اور متنی کے لوگ پانی کو واترکہتے ہیں جبکہ جبکہ چھچھ متنی کے لوگ وَتر زمیں کی نمی کوکہتے ہیں۔اس بارے میں راقم عرض کرتا ہے کہ محض سانڈ پالنے اور سات کو ستّہ کہہ دینے سے ایک چھوٹے سے گاؤں ہٹیاں اور چھچھ متنی کے چند مواضعات پر مشتمل علاقہ کا رشتہ حتّی اور متّی جیسی بڑی سلطنتوں سے جوڑا نہیں جا سکتا۔سانڈ مشرقی چھچھ میں بھی پالتے ہیں ۔اور صوبہ سرحد و پنجاب کے بکثرت زمیندار لوگ سانڈ پالتے ہیں۔سات کو پنجاب اور ہزارہ میں بھی ستّہ کہا جاتا ہے ،اسی طرح نمی کے لیے لفظ و۔تر صوبہ سرحد اور افغانستان میں بھی بکثرت استعمال ہوتا ہے۔جہاں تک سانڈ کے پوجنے کا تعلق ہے تو یہ رسم غالباً حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور سے بھی پہلے پڑ چکی تھی کیوں کہ جس وقت آپؑ اللہ تعالیٰ کے حکم سے کوہ طور پر تشریف لے گئے تھے تو سامری نے سونے کا ایک بچھڑا بنا لیا تھاجو ہوا لگنے سے آوازیں نکالتا تھا،جس کی بنا پر بنی اسرائیل کے اکثر لوگ گمراہ ہو گئے تھے،اور انہوں نے اس بچھڑے کی پوجا شروع کر دی تھی۔گائے یا بیل کا احترام ہندوؤں میں بھی زمانہ قدیم سے رائج ہے اور وہ اس کی پوجا کرتے چلے آرہے ہیں ادب کے طور وہ اسے گاؤ ماتا کہتے ہیں اور تبرکاً اس کا پیشاب بھی چُلو بھر کر پی لیتے ہیں ۔اثر افغانی نے اپنے ایک مقالہ ماہنامہ پشتو اپریل ۹197ء میں سامری کو دانی قبیلہ کا ایک فرد لکھا ہے ۔نیز کہ سامری کی اولاد بکثرت ہندوستان میں موجود ہے اور مشرک ہے گائے کو گاؤ ماتا اور بیل کو اپنے قبیلے کی مناسبت سے دان کہتے ہیں ۔نذر و نیاز کو بھی دان کہتے ہیں ۔ہم نے تو اپنے بزرگوں کو سانڈ لڑاتے اور انہیں ذبح کرتے دیکھا ہے رہٹ اور گاڑیوں پر جوتتے بھی دیکھا ہے جہاں تک مقامات کے ناموں اور الفاظ کا تعلق ہے تو اس قسم کے بکثرت الفاظ پیش کیے جاتے ہیں جوعبرانی ،یونانی ،پشتو ،رعربی ،سنسکرت اور انگریزی میں متماثل ہیں ۔ایسے مقامات کی بھی کمی نہیں جو شام و فلسطین ،افغانستان،پاکستان،بھارت اور بنگلہ دیش میں ایک جیسے ناموں سے موجود نہ ہوں یہ تو ایسے ہی ہے جیسے ہم لوگ انگلستان والوں پر کچھ اس قسم کا دعویٰ کر دیں کہ چونکہ ہم پشتومیں انڈے کو اگئی یا چار پائی کو کٹ ،آلو کو بٹاٹے کہتے ہیں اور کافی مقدار میں آلو اگاتے ہیں اور کھاتے ہیں مزے کی بات یہ ہے کہ انگلستان میں رہنے کی وجہ سے پشتو زبان میں انگریزی کے بہت سے الفاظ شامل ہو گے ہیں جیسا کہ موجودہ دور میں اردو میں بھی ان کی بڑی تعداد بڑھ رہی ہے۔انقراہ (ترکی) کے ایک عجائب گھر میں قوم حطی(حتّی)کے کافی آثار جمع ہیں ۔مصطفی کمال اتا ترک کا خیال تھا کہ ترکوں کے اکثر قبائل حطی قبیلہ میں سے ہیں ،’’سفر نامہ بہادر یار جنگ‘‘  (ازقلم: سکندر خان)

No comments

Ads Place