Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

Hover Effects

TRUE

Pages

{fbt_classic_header}

Header Ad

LATEST:

latest

Ads Place

Old Mosque In Hazro Part 1

آج تذکرہ ہو جائے تاریخی مسجدِ قصاباں کاجیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ مسجد حضرو کی قصاب برادری کے جدِامجد۔بقول چچا صبر منی چینجڑ ککو بابا نے بنوا...

آج تذکرہ ہو جائے تاریخی مسجدِ قصاباں کاجیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ مسجد حضرو کی قصاب برادری کے جدِامجد۔بقول چچا صبر منی چینجڑ ککو بابا نے بنوائی تھی۔بقول حاجی محمد صادق مالک چاچا منی چینجر ککو بابا ان کے دادا کے دادا یعنی صادق چاچا اور صابر حسین کے پردادا کے والد صاحب تھے۔ اس مسجد آس پاس تقریبا تمام قصاب برادری رہائش پذیر تھی۔ اب تو قصاب برادری کے کافی گھرانے دوسرے شہروں میں نقل مکانی کر گئے ہیں۔ پھر ابھی کافی لوگ حضرو میں رہتے ہیں قصاب برادری کے۔اس مسجد کے بارے کافی معلومات نہیں مل سکیں لیکن کچھ جو حاصل ہو سکیں ہیں وہ یہ ہیں کہ اس مسجد کو تعمیر ہوئے 200 سال کا عرصہ ہو گیا ہے۔ حضرو کی یہ سب سے پرانی مسجد ہے۔ یہ مسجد اس دور میں حضرو سے باہر تھی، اب آبادی میں اضافے کی وجہ سے حضرو کے اندر آ گئی ہے 

میری یاداشت کے مطابق اس مسجد کے امام اور خطیب حافظ محمد حنیف مرحوم تھے۔ جنہوں نے 1928ء سے 2002ء تک امامت اور خطابت کے فرائض انجام دئے۔ امام صاحب کی تاریخ پیدائش 1908ء کی ہے اور تاریخ وفات 2002ء کی ہے یعنی انہوں نے 94 سال عمر پائی۔ ان کی قبر پہ جو کتبہ نصب ہے ان بھی کافی معلومات حاصل ہوئیں۔ حافظ صاحب نے وفات تک 74 سال اس مسجد کی امامت کی۔ محمد الیاس صاحب فرزند حافظ فضل الہی کے کہنے کے مطابق حافظ محمد حنیف صاحب کو حافظ محمد داؤد صاحب چاہ میاں صاحب والے کے اصرار پر مسجد قصاباں میں امام مقررکیا گیا۔ حاٖفظ محمد داؤد صاحب خود بھی بہت خوش الحان حافظ تھے۔ نابینا تھے۔ جب حافظ داؤد صاحب رمضان المبارک میں تراویح میں قرآنِ پاک سناتے تو ان کی تلاوت سننے علاقہ چھچھ سے بہت دور دور تک لوگ ان کی امامت میں سنتے۔ امام حنیف صاحب کا عطااللہ شاہ بخاری سے خاص تعلق رہا۔اور حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رح سے بیعت تھے،1952ء میں حضرو بلدئی کے ممبر بھی رہے،اسکے علاوہ ہر دینی تحریکوں میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیتے تھے۔ حافظ صاحب کی وفات کے بعد اب انکے فرزند میں محمد ایوب صاحب امامت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

اس مسجد میں اسوقت موذن کے فرائض مولوی رشید احمدصاحب انجام دیتے تھے۔ مولوی صاحب انتہائی خوش الحان تھے۔ انتہائی محنتی۔ اپنی گذر اوقات پرانے جوتوں کی مرمت سے کرتے تھے، مسجد کے پچھواڑے ان کا چھوٹاسا گھر تھا۔ اس گھر کی ڈیوڑھی میں چھوٹے بچوں کو قرآنی درس وتدریس دیتے اور وہیں پے پرانے جوتوں کی مرمت کا کام بھی کرتے تھے۔ 

قناعت پسند بھی کمال کے تھے۔ ہمارے ابا جی مرحوم سے بہت خاص تعلق تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب آمدنی کے زیادہ زرائع نہیں ہوتے تھے،اس وقت غربت بھی تھی۔اسلئے جلانے کے لیے لکڑی۔ مٹی کا تیل۔ بچڑیاں اور گوھے کی تھاپیاں۔۔۔ گائے،بھینس کا فضلہ بطور ایندھن استعمال کیا جاتا تھا۔ ہمارے گھر میں بھی یہی تھاپیاں ہی بطور ایندھن استعمال کیا جاتاتھا، جب بھی ہمیں تھاپیوں کی ضرورت پڑتی ہم مولوی رشید احمد صاحب کو کہہ آتے۔ان دنوں اتوار کی منڈی مویشیاں بھی مشہور تھی،یہ بچڑیوں اور تھاپیوں کے بھار گدھوں پہ لدے لوگ ڈھوک مغلاں۔ قبلہ بانڈی اور جھامرہ وغیرہ سے اتوار کی منڈی میں یہ کھوتوں پہ لدے ہوئے بھار بیچنے کے لئے لاتے تھے۔مولوی صاحب ان سے خرید کر ہمارے گھر بھیج دیے، اس ایندھن یعنی بچڑیوں اور تھاپیوں کو تندور اور چولہے میں استعمال کیاجاتا۔

مولوی صاحب کافی عرصہ مسجد قصاباں مین مؤذن رہے۔ ان کے بعد کچھ عرصہ میاں محمد امین صاحب چشتی نظامی نے مؤذن کے فرائض انجام دئے۔ میاں امین صاحب امام حنیف کے چھوٹے بھائی اور ماسٹرنقیب اللہ کے والد تھے۔ اس مسجد ایک اور تاریخی حیثیت بھی تھی اور اب بھی ہے کہ جب کبھی بھی کوئی اسلامی اور دینی تحریک اٹھتی تو مسجد قصاباں اس تحریک کا مرکزہوتی تھی۔ 1953ء میں قادیانیوں کے خلاف تحریک کا مرکز بھی تھی یہیں پر علاقہ چھچھ کے علماء کا اکٹھ ہوتا۔یہیں سے جلوس نکلتا اور گرفتاریاں ہوتیں۔ اسکے بعد 1974ء میں بھی قادیانیوں کے خالف تحریک کا یہی مسجد مرکز رہی۔ پھر اس کے بعد 1977ء میں تحریک نظامِ مصطفے میں بھی یہیں سے جلوس نکلتے اور اجلاس ہوتے اور اجلاس کے بعد مسجد کے دروازے پر گرفتاریاں ہوتیں تھی،جن کی ضمانتیں اٹک میں ہو جاتی تھی۔ ہم بھی کبھی کبھی اٹک کچہری جایا کرتے تھے۔ محمد نعیم مغل

 

No comments

Ads Place