Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

Hover Effects

TRUE

Pages

{fbt_classic_header}

Header Ad

LATEST:

latest

Ads Place

Hujra System In Hazro

  '' حجرہ '' ایک تربیت گاہ حجرہ چھچھ کا ایک ثقافتی نمونہ ہے جو صدیوں سے آباد ہے اسکی رونقوں میں کبھی کمی نہیں آئی. وقت کے سا...


 

'' حجرہ '' ایک تربیت گاہ حجرہ چھچھ کا ایک ثقافتی نمونہ ہے جو صدیوں سے آباد ہے اسکی رونقوں میں کبھی کمی نہیں آئی. وقت کے ساتھ کچھ انداز بدلے. بہت سی جگہوں پہ یہ دو حصوں میں تقسیم ہو گیا, چارپائیوں والا عام حجرہ اور اسی کا ایک حصہ ذرا, وی ائی پی بن کر صوفوں والا ہو گیا. میرے دادا ملک حسن دین فجر کی نماز کے لئے مسجد کے لئے نکلتے, واپس حجرہ میں پنچ جاتے, ناشتہ کھانا اور سارا دن وہیں گزرتا. علماء, سیاستدان اور زندگی کے مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی آمد و رفت اور محفلیں سجی رہتیں. حجرہ باقائدہ بیڈ روم, ڈرائنگ, کچن,لان,واشروم پہ مشتمل تھا, نماز کی جگہ اور علاقہ بھر میں مشہور '' ٹھنڈی کھوئی '' تھی جہاں پورا علاقہ پانی بھرنے آتا. یہی حجرہ پھر تقسیم میں میرے والد کو گھر کے لئے مل گیا. انہیں نے پھر اس میں تھوڑی حجرہ کی جگہ چھوڑ کر باقی کو گھر کی شکل دے دی. مفتی عثمان القاسمی صاحب, ڈاکٹر صادق, ملک عزیز احمد, جیسے عالم فاضل لوگوں کی محفلیں آباد رہیں. محلے کے بزرگوں کا ڈیرہ رہتا, غمی خوشیاں بھگتاء جاتیں. میرے والد مرتے دم تک حجرے کو آباد رکھے رہے. ہر آنے جانے والے کو چائے بر وقت ملنے کا یقین ہوتا تھا. ہمارے گھر ایک ہی اشو پر فوری لڑائی بھڑکتی تھی اگر میری والدہ کہہ دیتیں کہ '' اس وقت چائے '' یا '' تھوڑا صبر کریں '' مجھے آج تک جو حجرے کی سب سے اچھی روایت یاد ہے وہ چارپائی پر بیٹھنا تھا. کوئی انتہائی غریب, مفلوک الحال بھی آتا تو وہ سرہانے اور والد صاحب '' دون '' پآون والی سائیڈ) والی سائیڈ پر بیٹھے ہوتے. میں سمجھتا ہوں حجرے کی چارپائی پر بیٹھنے کے طریقے نے ہمیں بڑوں اور مہمان کی عزت کا درس سکھایا. حجرہ درحقیقت ایک'' پبلک پلیس '' کا روپ ہوتا ہے, جہاں لوگ اپنی جگہ سمجھ کر, اعتماد سے آتے, بیٹھتے ہیں. حالات حاضرہ سے آگاہی, محلے گاؤں کی اچھی بری خبریں, سیاست اور مذہبی گروہ بندی سے پاک ایک اجتماعی مقام, جہاں محبتیں, احترام, برداشت, ایک دوسرے کی فکر, مسائل جھگڑوں پر مخلصانہ اثر اندازی نظر آتی تھی. آجکل حجرے بھی ہماری طرح محبتی کم اور سیاسی زیادہ ہو گئے ہیں. میں حجروں کا شیدائی ہوں, بچپن حجرہ پر بیٹھتے, حجرہ پر بیٹھے بزرگوں کی چائے پانی ڈھونے میں گزرا. اس لیے حجرہ کے ذکر پر میں اصل موضوع سے ہٹ گیا. اس وقت بھی حجرہ چھچھ کی روایتوں اور ثقافت کا اہم جزو ہے. بلکہ آج کا حجرہ زیادہ آرام دہ اور سہولتوں سے مزین ہے. عام طور پر ہر حجرے والے گھرانے پڑھے لکھے ہیں, انکی اولادیں خاص طور پر پڑھی لکھی, اعلیٰ عہدوں پر ہیں, پیسوں کی کمی نہیں ہمارے ارد گرد غریب بچوں کے حالات, تعلیم و تربیت کے لحاظ سے کچھ تسلی بخش نہیں. میں نے اپنے '' فری اسکول '' کا آغاز حجرے کی چارپائیوں سے کیا تھا. آج الحمداللہ, چھوٹا سا مکمل سکول ہے ہم اپنے حجروں کو غریب بچوں کی تعلیم, تربیت, طالب علموں کی کونسلنگ کے لئے استعمال کر سکتے ہیں. ہمارے دیہات میں پڑھے لکھے لوگوں کی کمی نہیں. بہت سے ریٹائرڈ لوگ, ریٹائرڈ اساتزہ فراغت کی زندگی گزار رہے ہیں. مجھ جیسے بہت سے سیانے سوشل میڈیا پر اچھی اچھی باتیں کرتے ہیں. اگر ساتھ تھوڑا عمل بھی شروع ہو جائے, تعلیم و تربیت کے لئے ''حجرہ '' کو چند گھنٹوں کے لئے استعمال میں لانے کا رواج ڈالیں. اپنی تعلیم, تجربوں کے نچوڑ سے چند قطرے, اپنے ارد گرد کے ان غریب بچوں کو بھی دیں, جنھیں ہم نے, انکے حال پر چھوڑ کر, انھیں انکے نصیب کے حوالے کر دیا ہے. اور اپنی ساری عقل, تجربہ, وسائل, اپنی اپنی اولادوں پر آزما رہے ہیں. جس حجرے کی بنیاد میں, غریب کی ہمدردی, رہنمائی, مدد, سہارے کی خوشبو شامل ہوگی. اسکی کچی دیواریں, لکڑی کے چھت, زمین کی دھول بھی خوشبوؤں سے مہتر رہے گی.امجد اقبال ملک

No comments

Ads Place