Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

Hover Effects

TRUE

Pages

{fbt_classic_header}

Header Ad

LATEST:

latest

Ads Place

Chahch History In Urdu

 چھچھ تاریخ کے آئینے میں:حضرو پنجاب کے شمالی مغربی سرے پر واقع ضلع اٹک کی تحصیل،اٹک کا زریں خطہ ہے۔اباسین (موجودہ دریائے سندھ) کے کنارے شرقا...



 چھچھ تاریخ کے آئینے میں:حضرو پنجاب کے شمالی مغربی سرے پر واقع ضلع اٹک کی تحصیل،اٹک کا زریں خطہ ہے۔اباسین (موجودہ دریائے سندھ) کے کنارے شرقاًغرباً تقریباً انیس میل کی لمبائی اورآٹھ میل کی چوڑائی میں پھیلا ہوا ہے۔ جس کے شمال میں تحصیل صوابی اور جنوب میں غازی سے لے کراٹک تک جو آبادی ہے وہ تمام علاقہ’’چھچھ‘‘ کہلاتاہے۔ چھچھ کی مشرقی جانب کوہ گنگر اور دریائے ہرو کا پل ہے اورجنوب مغربی جانب انتہائی آخری سرے پر دریائے سندھ اور اس پرتعمیر شدہ اٹک کا مشہور پل اور قلعہ واقع ہے۔ جنوب میں ریلوے لائن اور کامرہ کی پہاڑیاں ہیں۔ علاقہ کے گردونواح میں مشہور تاریخی مقامات واقع ہیں۔ تربیلا ڈیم اور حسن ابدال کا مشہور تاریخی شہر مشرق میں ہے۔ خیر آباد کا مشہور قصبہ دریائے سندھ کے پار مغرب میں مشہور تاریخی گزر گاہ ہنڈ (وے ہند) شمال میں اور کامرہ کی پہاڑیوں کے پاس جنوب میں ہوائی جہازوں کااڈہ اور فیکٹریاں ہیں۔

چھچھ کا پرانا نام’’چوراسی چھچھ‘‘ ہے۔ کیونکہ انگریزوں کی آمد سے پہلے اس کے چوراسی دیہات تھے:1۔اٹک(قدیم)،2۔حضرو،3۔غورغشتی(اس علاقے کے بڑے بڑے قصبے ہیں)۔کل آبادی تقریباً چار لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ چھچھ ہی کے میدان میں محمود غزنوی اورانندپال کاآخری تاریخی معرکہ ہوا جو درہ خیبر کی طرف سے مسلمان فاتحین کا پہلا حملہ تھا۔

وجہ تسمیہ: علاقہ’’چھچھ‘‘ ’’چاچ‘‘ ایک ترکی لفظ سے ماخوز ہے۔ مگر زمانے کے ساتھ اس کی وجہ تسمیہ کے متعلق مختلف آراء قائم ہوتی ہیں۔ جس طرح خاص کرمشرقین مورخین نے پاک وہند کی تاریخ بگاڑی ہے اسی طرح چھچھ کے نام پر بھی نئی ریسرچ کی گئی۔ سب سے پہلے بعض افراد نے یہ کہا کہ چھچھ کانام ہنڈ کے برہمن حکمران نے اس علاقے کو دیا جو بعد میں سندھ کا راجہ چچ کہلاتاتھا۔ اور اس کا بیٹا راجہ داہر مسلمان فاتح محمد بن قاسم ثقفی کا ہم عصر تھا۔ اسی طرح راولپنڈی گزٹیئر1865 ؁ء میں کرنل کریکرافٹ نے لکھا ہے کہ چھچھ کاماخذ پشتو کا لفظ ’’چھج‘‘ ہے۔ یعنی جس آلے سے اناج صاف کیاجاتا ہے۔ حضرو کی کمیٹی کے کاغذات میں یہ بھی تحریر ہے کہ چھچھ کے معنی سنسکرت میں جھیل یا تالاب کے ہیں۔ چونکہ یہ علاقہ دریائے سندھ کے نشیب میں واقع ہے اس لیے دریا کی طغیانی سے پانی آکر جھیل یا تالاب میں تبدیل ہوجاتاہے۔اس وجہ سے اس خطے کو چھچھ کہتے ہیں۔ بعض کاخیال ہے کہ چھچھ کالفظ چھاچھ کا مخفف ہے۔ ابتدائی ایام میں گنگر پہاڑ کے ساتھ ساتھ آکر گوجر قوم آباد ہوئی تو ان کی گائے اور بھینسوں کی کثرت سے چھاچھ ہوتی تھی۔ یہ لفظ چھاچھ سے چھچھ میں تبدیل ہوگیا۔ ۔ بعض کے نزدیک ’’چھچھ کا لفظ یونانی لفظ چھب سے ہے۔ جس کے معنی دلدلی زمین کے ہیں۔مشہور دکنی مورخ مولوی محمد حسین اغلب نے اپنی تاریخ ’’نیرنگِ افغاناں‘‘ میں صفحہ 17پر چھچھ کانام علاقہ چچہا تحریر فرمایا ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چھچھ ’’چچ‘‘،’’چھچ‘‘ یا ’’چاچ‘‘،’’چھاچھ‘‘، ’’چھب‘‘، ’’چہچہا‘‘یہ الفاظ تمام کے تمام سنسکرت کے علاوہ موجودہ ہندی اور اردو کی لغات میں بھی ملتے ہیں۔ سب سے پہلے چھچھ کے متعلق دیکھناچاہئے کہ اسے کس طرح سنسکرت اور ہندی میں استعمال کیاجاتاہے اوراس کے کیا معنی ہوتے ہیں کیا یہ لفظ چھچھ کی وجہ تسمیہ کیلئے موزوں ہیں۔ بھگت کبیر داس جی مشہور سنسکرت وہندی کے عالم اور شاعر نے حضرت محمد صلى الله عليه وسلم کی مدح میں ایک شعر کہا ہے جس میں چھچھ کالفظ نگاہ کے معنی میں استعمال کیا ہے۔ واقعہ معراج کے متعلق اِن کا شعر ہے ۔ 

ترجمہ:(معراج کی شب)آسمانوں کے دروازے بھی نہیں کھلے مگر نبیؐ آسمانوں سے اس طرح گزر گئے جیسے نگاہ شیشہ کے پار ہوجاتی ہے۔ ہندی میں چھچھ بمعنی نگاہ اوراِسی طرح باقی الفاظ بھی ہندی میں ان معنوں میں استعمال ہوتے ہیں۔

چچ ایک راجہ کانام ہے۔ جس کی تشریح کی یہاں ضرورت نہیں ہے۔ چھج یا چھاج بھی ہندی لفظ ہے۔ یہ پشتو کا لفظ نہیں ہے یہ لفظ ہندی سے پشتو میں منتقل کیاگیا ہے۔ تشریح پہلے گزر چکی ہے۔ چھاچھ ہندی میں ’’لسی‘‘ کے معنوں میں مستعمل ہے۔چھب ہندی میں وجاہت، تزہین اور شان وناز کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ چہچہا بمعنی پرندوں کی آواز ہے۔ اب ایک مورخ ہی اس بات کا فیصلہ کرسکتا ہے کہ چھچھ کی وجہ تسمیہ کیلئے ان میں سے کوئی بھی لفظ موزوں اور مناسب نہیں ہے۔ میرا خیال ہے کہ چھب یونانی لفظ نہیں ہے بلکہ سنسکرت یا ہندی لفظ ہے۔ جو عام طور پر اردو لغت میں ملتا ہے۔ کسی لغت نے چھب یا چھج کو اردو میں یونانی یا پشتو لفظ استعمال نہیں کیا ہے۔ چھچھ ایک بہت قدیم لفظ ہے جو پاک وہند کی قدیم زبانوں میں مسلمان دور سے کچھ عرصہ بیشتر استعمال ہوتا چلاآرہا ہے۔ اب میں دو بزرگ ترین مؤرخین کاذکر کرتاہوں۔ایک قابل احترام محترم مولانا غلام رسول مہرؔ ہیں۔ جنہوں نے ’’سید احمدشہید‘‘ کے سلسلہ میں چھچھ اور ہزارہ کا چپہ چپہ دیکھا ہے اور ’’حیاتِ حاضر خانی‘‘ کا مخطوطہ دیکھ کر چھچھ کے ترکی لفظ ہونے پر میری توجہ دلائی۔ دوسرے سید ملت حضرت علامہ سید سلیمان ندویؒ تھے انہوں نے بھی چھچھ کو ترکی لفظ قرار دیا ہے۔ پاک و ہند کے مشہور مؤرخین سے خط وکتابت کی گئی جو میرے پاس محفوظ ہے۔ صرف ماہر لسانیات مخدومی سید عبدالقدوس ہاشمی صاحب کے گرامی نامے کا کچھ حصہ تحریر کرتاہوں۔فرماتے ہیں: ’’اپنے ناقص علم کی حد تک جواب پیش کررہا ہوں۔ چھچھ ایک بہت قدیم لفظ ہے۔ جو اَب بھی گجراتی زبان اور سندھی میں مستعمل ہے۔ اس کے معنی ہیں’’اوبھری ہوئی اَو تھلی، ریتلی یا صحرائی زمین‘‘مجازاً کم گہرے دریا کو بھی کہتے ہیں۔ گجرات اور سندھ کے مابین اِسی طرح ایک علاقے کو اب بھی چھچھ کا علاقہ کہا جاتا ہے، اس کی طرف کوئی نسبت میری نظر سے نہیں گزری۔اس علاقے میں دو چار چھوٹے چھوٹے دیہات ہیں۔ جن لوگوں کو چھاچھی لکھا گیا ہے۔ وہ لفظ چاچی کی بگڑی ہوئی صورت ہے۔ چاچ ترکی زبان کا لفظ ہے۔ جس کے معنی ہیں’’غلے کا ڈھیر یا کھلیان‘‘ اس نام کی آبادیاں بلکہ بڑے قصبے موجودہ سمرقند(ترکستان روسی)اور کاشغر(ترکستان چینی، سنکیانگ)) کے قریب تھیں۔ فارسی اور ترکی میں اس کی نسبت چاچی اور عربی میں شاشی آتی ہے۔ سید صاحب مرحوم (سید سلیمان ندوی ؒ )نے جو لکھا ہے بس اتنا ہی ملتاہے‘‘ (مکتوبِ گرامی 18مئی1977 ؁ء کراچی) مؤرخین کی آراء کے علاوہ ہماری مقامی روایات اس طرح ہیں کہ چھچھ ترکی لفظ چچ سے ہے۔ جس کے معنی پشتو میں’’اُچ خوڑ‘‘ اورمقامی زبان میں’’چھڑ‘‘ کے ہیں۔ یعنی دریا کا وہ حصہ جو سیلابی موسم میں نالوں کی شکل اختیار کرجاتاہے اور بعد میں ریت اور پتھر چھوڑ جاتاہے۔ اسی طرح ’’اُچ خوڑ‘‘ بھی دریا کے ساتھ ملحقہ نالے کو کہتے ہیں۔ اس سے زیادہ تشریح پرانے بزرگوں نے اس طرح فرمائی ہے کہ کشان خاندان سے پہلے کامرہ کی پہاڑیوں سے لے کر تحصیل صوابی کے مواضعات جبئی و جلسئی تک ایک بڑی جھیل تھی اور دریائے سندھ بھی آکر اس میں گرتاتھا۔اس جھیل میں جابجا ٹیلے تھے جن پر کچھ آبادیاں جھونپڑوں کی طرز کی تھیں۔ ان چھونپڑوں میں مچھیرے اور لٹیرے رہتے تھے۔ اسی وجہ سے اسے سندھ ساگر کہاجاتاتھا۔ قدرتی عمل سے دریائے سندھ نے رُخ تبدیل کیاتو یہ زرخیز خطہ وجود میں آگیااور ایک مشہورر ضرب المثل بن گئی۔’’چھچھ بِنا سمندر کی، جو بیجے سوہوت‘‘ جب پانی خشک ہوگیااور پتھر ہی پتھر رہ گئے تو جو تاتاری قوم یہاں آباد تھی۔ وہ اپنی زبان میں چچ یا چاچ کہنے لگی جو بگڑتے بگڑتے ’’چھچھ‘‘ ہوگیا۔ واللہ اعلم بالصواب!

خواجہ محمد خان اسدؔ ؒ 

No comments

Ads Place