Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

Hover Effects

TRUE

Pages

{fbt_classic_header}

Header Ad

LATEST:

latest

Ads Place

A Buddhist monastery in Takht-i-Bhai Mardan

 بدھ مت کے مسحور کن آثار تحت بھائی پہاڑی سلسلہ کے دامن میں واقع ہونے پرایک خیالی اور دماغی فضا کااحساس دلاتے ہیں اردگرد کے ز یر خیز نشیبی می...

 بدھ مت کے مسحور کن آثار تحت بھائی پہاڑی سلسلہ کے دامن میں واقع ہونے پرایک خیالی اور دماغی فضا کااحساس دلاتے ہیں اردگرد کے ز یر خیز نشیبی میدانوں اور دلفریب مناظر کو دیکھ کر ایک عجیب طمانیت محسوس ہوتی ہے۔اتنی بلندی اور گوشہ تنہائی کے رومانسی ماحول میں ایسی عظیم الشان خانقاہ کی تعمیر پر اس کے موجدوں کی اپنے مذہب سے گہری لگن اور فن تعمیر میں مہارت کابخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے یہ آثار قدیم 98ایکڑ رقبہ پر پھیلے ہوئے ہیں اور سطح سمندر سے بلندی 1600فٹ ہے جبکہ مرکزی خانقاہ پارکنگ سے215فٹ بلندی پر واقع ہے۔کھنڈرات کو پہاڑی کی کان کنی سے پیدا ہونے والے نقصانات کے سدباب،ممکنہ تجاوزات کی روک تھام اور قدرتی ماحول کو یقینی بنانے کیلئے تمام پہاڑی سلسلہ کو آثار قدیمہ کا مخصوص علاقہ قرار دے دیا گیا ہے۔ان کھنڈرات کا پہلی دفعہ ذ کررنجیت سنگھ کی حکومت کے فرانسیسی آفیسر جنرل کورٹ نے 1836ء میں کیا۔1869ء1872 ء تک بتوں کی تلاش کے سلسلہ میں غیر منظم طریقے سے کھدائی کی گئی جبکہ آثار قدیمہ کے پہلے ڈائریکٹر جنرلڈاکٹر سر الیگزینڈر کننگھم نے ان کھنڈرات کا1873ء میں دورہ کیا۔پہلی باقاعدہ کھدائیڈاکٹر ڈی بی اسپنرنے09۔1907کے دوران کی اور پشاور میوزیم کے اس وقت کے کیوریٹر ایچ ھارگیرویزنے اس سلسلہ کو13۔1910ء تک جاری رکھا۔90سال کے عرصہ بعید کے بعد پاکستانی ماہرین آثار قدیمہ نے05۔2003ء کے دوران کھدائی کی۔ان کھدائیوں سے برآمد ہونے والے نواورات دنیا کے مختلف مشہور عجائب گھروں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔جبکہ پشاور میوزیم کویہ اعزاز حاصل ہے کہ کھنڈرات کہ اس میں موجود نواورات منفرد حیثیت کے حامل اور کافی مقدار میں ہیں۔تخت باھی کے کھنڈرات جن عمارت پر مشتمل ہیں۔ان میں بڑاسٹوپہ،چھو ٹے سٹوپے،سٹوپوں کے گرد بت رکھنے کے کمرے،خانقاہ،مراقبہ کیلئے تاریک تہہ خانے،دیوان عام،طعام گاہ،باورچی خانہ،راہبو ں کی رہائش گاہیں،ڈھکی ہوئی گزرگاہیں اور کئی منزل رہائشی عمارتیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ان عمارت کی طرز تعمیر کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ کھنڈرات پہلی صدی قبل مسیح سے ساتویں صدی عیسوی کے زمانہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ان کھنڈرات کو تاریخی،مذہبی اور نمایاں فن تعمیر کی بدولت 1916ء میں سرکاری تحویل میں لیکر محفوظ آثار قدیمہ قرار دیا گیا۔جبکہ 1980میں یونیسکونے اسے عالمی ورثہ میں شامل کرلیا محکمہ آثار قدیمہ ان کھنڈرات کی مناسب دیکھ بھال اور ترقی کے لیے کوشاں ہیں۔حکومت خیبرپختونخواہ ان کھنڈرات کی ضروری مرمت اور ترقی کے لیے کوشاں ہے۔

محکمہ آثار قدیمہ حکومت خیبرپختونخواہ

No comments

Ads Place